جنوری کی ایک سرد صبح شبّیر قریب کوئی چھ بجے الارم کی آواز سے اٹھتاہے۔ یوں تو طبیعت گرم بستر چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی مگر یہ خیال کہ آج جامع(یونیورسٹی ) کا پہلا روز ہے شبّیر کی طبیعت کو چاک و چونبد کردیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ پہلا روز ہے آج سے ذندگی میں کافی کچھ نیا ہوگا، شبّیر کو خروش و بے قراری تو ہونی ہے تھی۔آنکھوں کو مسلتے ہوئے شبّیر اپنا بستر چھوڑ دیتا ہے اور جاکر اپنی والدہ کو اٹھاتا ہے۔
والدہ اپنا بستر چھوڑ چھاڑ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں کے بچے کا پہلا روز ہے۔ شبّیر سوفے پر جا بیٹھتا ہے اور والدہ محترمہ نیند میں جھومتی ہوئی باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں ، ایک بھگونے میں پانی بھر کے اسے چولھے پر گرم کرنے کے واسطے چڑھا دیتی ہیں ، اور خود بیت الخلاء کی طرف چل دیتی ہیں۔
شبّیر ابھی سوفے پر بیٹھا اونگھ ہی رہا ہوتا ہے کہ والدہ بیت الخلاء سے باہر آکر شبّیر کو آواز دیتی ہیں ،” شبّیر پانی گرم ہوگیا ہے،تم منہ دھو لو ، فریش ہوجاوٴ میں جب تک ناشتہ تیار کردوں “۔
اب شبّیر غسل خانے کی جانب چل دیتا ہے۔ اور کوئی پندرہ منٹ بعد تر وتازہ صورت کے ساتھ غسل خانے سے برآمد ہوتا ہے۔باورچی خانے میں جاتا ہے تو ناشتہ تیار رکھا ہوتا ہے اور والدہ اپنے کمرے کا رخ کر چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال ناشتہ کرنے کے بعد شبّیر اپنے کپڑے استری کرتا ہے ، کپڑے بدلتا ہے اور کھڑا ہوجاتا ہے آئینے کے سامنے خود کو سنوارنے۔ سر میں کنگھا پھیر ہی رہا ہوتا ہے کہ اسے یاد آتا ہے کہ آج پہلے روز تو میں نے پوائنٹ (یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ سروس ) سے جانا ہے جو ٹھیک پونے آٹھ بجے اسٹاپ پر آجائے گی ۔
شبّیر گھڑی کی طرف دیکھتا ہے تو سات بج کر بیس منٹ ہو چکے ہوتے ہیں ۔شبّیر اب جلدی جلدی کنگھا کر کرا کے جوتے چھڑاتا ہے بستہ اٹھاتا ہے اور والدہ سے دعائیں لیتا ان کو کمرے میں مطلع کرتے ہوئے کہ میں جا رہا ہوں دروازے کی طرف دوڑ جاتا ہے۔
آخر کو اب شبّیر اسٹاپ پر ہوتا ہے، جو کہ اس کے گھر سے ذیادہ دور نہیں بلکہ پانچ گلیوں کے فاصلے پر تھا ۔
شبّیر بے صبری سے بس کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور گردن اچکا اچکا کر بس کے آنے والے راستے کی جانب دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اب آئی کب آئی ۔بلآخر دور سے اسے ایک بڑی خستہ حال بس اپنی جانب آتی ہوئی نظر آتی ہے جس پر اسکی جامع(یونیورسٹی )کا نام صاف صاف لکھا ہوتا ہے۔بس اس کے قریب آن پہنچتی ہے اور وہ بس کو ہاتھ کے اشارے سے روک کر اس میں سوار ہوجاتا ہے اور بس چل پڑتی ہے۔
بس میں سوار ہوکر شبّیر کیا دیکھتا ہے کہ بس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے ، بس کھچاکھچ بھری ہوئی ہے۔ کل کوئی آٹھ لڑکے بس میں موجود ہیں جس میں سے چار تو کھڑے ہوئے ہیں ، لڑکوں کے لیئے بس کی سب سے آخری والی چار سیٹیں ہی متعین ہیں ۔باقی پوری بس میں لڑکیا ں سوار ہیں جو بیٹھی ہوئی ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن جو کھڑی ہیں وہ بھی سر سے سر ملائے ہوئے ہیں اور اپنے بستے بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو پکڑائے ہوئے ہیں ۔
Muskan Malik
12-Sep-2022 12:48 PM
بہت عمده🔥🔥
Reply
Angela
07-Oct-2021 03:31 PM
Good
Reply
Seema Priyadarshini sahay
30-Sep-2021 05:26 PM
Wow
Reply